Tuesday, September 17, 2024
HomeArticles(سپرمین ان اسلام) ماؤں کو حکیمانہ نصیحت

(سپرمین ان اسلام) ماؤں کو حکیمانہ نصیحت

ماؤں کو حکیمانہ نصیحت
امام جعفر صادق کی علمی فوقیت کے اظہارات میں سے ایک یہ تھا کہ: آپ نے ماؤں کو وصیت کی کہ اپنے شیر خوار بچوں کو اپنے بائیں طرف سلائیں۔
صدیوں سے اس تاکید کو بے محل اور فضول خیال کیا جاتا رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے تاکید پرغور نہیں کیا تھا اور بعضوں نے اس پر عمل کرنے کو خطرناک سمجھا ان کا خیال تھا کہ اگر شیر خوار بچے کو ماں کی بائیں جانب سلا دیا جائے تو ممکن ہے کہ ماں سوتے میں کروٹ بدلے اور بیٹے کو اپنے جسم کے نیچے کچل دے۔

محمد بن ادریس شافعی ( جو ۱۵۰ ہجری میں امام جعفر صادق کی پیدائش کے دو سال بعد غزوہ میں پیدا ہوئے) اور ۱۹۹ ہجری میں قاہرہ میں فوت ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ کہاں ماں کو اپنے بچے کو بائیں طرف سلانا چاہیے یا دائیں طرف تو انہوں نے جواب دیا دا ئیں اور بائیں میں کوئی فرق نہیں ماں اپنے بچے کو جس طرف آسان سمجھے اس طرف سلائے بعض لوگوں نے امام جعفر صادق کے فرمان کو عقل سلیم کے خلاف قرار دیا چونکہ ان کے خیال میں دایاں بائیں سے زیادہ محترم ہے ان کا خیال تھا کہ ماں اپنے بچے کو دائیں جانب سلائے تاکہ بچہ اس کے دائیں جانب کرامت سے بہرہ مند ہو سکے۔امام جعفر صادق کی اس وصیت کو نہ تو مشرق میں کوئی اہمیت دی گئی اور نہ ہی مغرب میں کسی نے اس کی قدر و قیمت کو جانا حتی کہ علمی احیاء کے دور میں جب کہ دانشور ہر علمی موضوع پر اچھی طرح غور کر رہے تھے کسی نے نے امام امام جعفر صادق کے قول کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آپ کا یہ فرمان
علمی نقطہ نظر سے سودمند ہے یا نہیں؟
سولہویں سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے ادوار جو علمی احیا کے ادوار کہلاتے ہیں گذر چکے تھے اور انیسویں صدی عیسوی آئی اور اس صدی کی دوسری دھائی میں امریکہ کی کورنیل کے یونیورسٹی قائم ہوئی ۔ عزرا کی کورنیل یونیورسٹی کا بانی تھا اور جس نے بچپن میں کافی مشکلات جھیلی تھیں نے فیصلہ کیا کہ اس یونیورسٹی میں شیر خوار اور تازہ پیدا ہونے والے بچوں پر تحقیق کے لئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے اس انسٹیٹیوٹ نے پہلے ہی سال تدریس شروع کر دی اور اسے میڈیکل کالج سے منسلک کر دیا گیا ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا کام جاری ہے بعید ہے کہ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوںکے متعلق کوئی موضوع ایسا ہو جس پر اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق نہ ہوئی ہو دنیا میں کوئی ایسا علمی مرکز نہیں ہے جس میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے بارے میں اس مرکز جتنی معلومات کا ذخیرہ ہو یہاں تک کہ تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے اشتہارات اور سائن بورڈ پر بھی اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق ہوتی تھی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس انسٹیٹیوٹ کے محققین نے دنیا کے عجائب گھروں میں پائے جانے والے نو مولود بچوں کے متعلق سائن بورڈوں پر نگاہ ڈالی تو انہیں پتہ چلا کہ ۴۶۶ سائن بورڈوں میں سے اکثریت ایسی ہے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیں جانب بغل میں لیا ہوا ہے ان میں سے ۳۷۳ سائن بورڈوں پر ماؤں نے بچے کو بائیں جانب بغل میں لیا ہوا ہے اور صرف ۹۳ سائن بورڈ ایسے ہیں جن میں
ماؤں نے بچے کو دائیں طرف بغل میں لیا ہوا ہے۔ اس بنا پر عجائب گھروں میں پائے جانے والے اسی (۸۰) فیصد سائن بورڈ ایسے تھے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیں بغل میں لیا ہوا تھا نیو یارک کی ریاست میں کورنیل یونیورسٹی سے منسلک چند زچہ خانے ایسے ہیں تھا جو تحقیق کے مرکز سے وابستہ ہیں اور وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے معائنے اور تحقیق کی رپورٹیں مذکورہ مرکز کو بھیجتے رہتے ہیں ان ڈاکٹروں کی طرف سے ایک طویل مدت تک بھیجی جانے والی مذکورہ رپورٹوں کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے دنوں میں جب نو مولود ماں کی بائیں جانب سوتا ہے تو اسے دائیں جانب سونے کی نسبت زیادہ آرام ملتا ہے اور اگر اسے دائیں طرف سلایا جائے تو جلد ہی جاگ اٹھتا ہے اور رونے لگتا ہے۔
مذکورہ تحقیقی مرکز کے محققین نے اپنی تحقیق کا دائرہ کار صرف سفید فام امریکنوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے سیاہ فام اور ریڈ انڈین بچوں پر بھی تحقیق کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس موضوع کا تعلق رنگ و نسل سے نہیں دنیا کی تمام اقوام کے بچوں میں یہ خاصیت موجود ہے۔ کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز نے اس موضوع پر مسلسل تحقیق کی تھی اس مرکز کے ڈاکٹروں نے نامعلوم شعاعوں کے ذریعے جنین کا حاملہ عورت کے
پیٹ میں معائنہ کیا لیکن ان کی معلومات میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا یہاں تک کہ ہولو گرافی ایجاد ہو گئی۔ ہولوگرافی ہولو گرافی کی ایجاد کے بعد اس تحقیقی مرکز کے ڈاکٹروں نے ہولوگرافی کے ذریعے ماں کے پیٹ میں جنین کی تصویر لی انہوں نے دیکھا کہ ماں کے دل کی دھڑکن کی آوازوں کی لہریں جو تمام بدن میں پھیلتی ماںکے دل ہیں جنین کے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ اس مرحلے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ معلوم کیا کہ کیا ماں کے دل کی دھڑکنوں کا وقفہ بھی جنین میں رد عمل ظاہر کرتا ہے یا نہیں؟ چونکہ ڈاکٹر صاحبان ماں کے دل کی دھڑکن کو ہلاکت کے اندیشے سے نہیں روک سکتے تھے لہذا انہوں نے اس تحقیق کو ممالین یعنی دودھ دینے والے جانوروں پر
جاری رکھا انہوں نے جو نہی ماں کے دل کی دھڑکن روکی تو دیکھا کہ جنین میں رد عمل پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ تجربات بار بار دھرائے تو یقین کر لیا کہ ممالین جانوروں کے دل کی دھڑکن کو روکنے سے ان کے جنین میں رد عمل ظاہر ہوتا ہے اور ماں کی موت کے بعد جنین بھی ہلاک ہو جاتا ہے کیونکہ ماں کے دل سے نکلنے والی ایک بڑی شریان جنین کو خون پہنچاتی ہے جو اس کی غذا بنتا ہے اور جب دل ساکن ہو جائے
گا تو جنین کو غذا نہیں پہنچے گی اور وہ ہلاک ہو جائے گا۔
کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے سائنس دانوں نے متعدد تجربات سے یہ اخذ کیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ میں اس کے دل کی دھڑکنوں کو سننے کا عادی ہو جاتا ہے بلکہ ان دھڑکنوں کا اس کی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے اگر یہ دھڑکن رک جائے تو بچہ ماں کے پیٹ میں بھوک سے مر جائے ۔ ماں کے دل کی دھڑکن سننے کی جو عادت بچے کو پیدائش سے پہلے ہوتی ہے وہ اس میں اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اگر ان دھڑکنوں کو نہ سنے تو پریشان ہو جاتا ہے بچہ ان دھڑکنوں کو سن کر پر سکون رہتا ہے لیکن چونکہ دائیں جانب دل کی دھڑکنیں سنائی نہیں دیتیں لہذا بچہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ اگر کور نیل یونیورسٹی کا بانی نومولود اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا یہ مرکز قائم نہ کرتا تو اس موضوع پر ہرگز تحقیق نہ ہوتی اور یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ امام جعفر صادق نے یہ کیوں فرمایا کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو بائیں طرف رکھیں اور سلائیں؟ اور اس میں کیا مصلحت اور فوائد مضمر ہیں

آج شیر خوار بچوں کی پرورش کے تمام سنٹرز جو کورنیل یونیورسٹی کے حقیقی مرکز سے وابستہ ہیں ان میں جس جس کمرے میں نو مولود لیٹے ہوتے ہیں وہاں ایک مشین رکھی ہوتی ہے جس سے مار کے دل کی دھڑکنوں جیسی آواز سنائی دیتی ہے یہ آواز ایک ریسیور کے ذریعے ہر بچے کے کان تک پہنچائی جاتی ہے بالغ انسان چاہے مرد ہو یا عورت عموماً اس کا دل ایک منٹ میں ۷۲ بار دھڑکتا ہے کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی انسٹیٹیوٹ میں قائم شیر خوار بچوں کی پرورش کے مذکورہ مراکز میں اگر ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ایک سو دس سے نہیں ہو جائیں تو ایک کمرے میں موجود تمام بچے رونے لگتے ہیں پس سائنس دانوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ہے دھڑکنیں فی منٹ ہونا چاہئیں تا کہ بچے پریشان نہ ہوں اور رونے نہ لگیں۔ مذکورہ مراکز میں چند مرتبہ یہ تجربات دھرائے گئے۔ کچھ نو مولودوں کو ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں ماں کے دل میں مصنوعی دھڑکنیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں اور کچھ نو مولودوں کو ایک دوسرے کمرے میں رکھا گیا جہاں وہ ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں سن سکتے تھے اس دوران یہ معلوم ہوا کہ وہ نو مولود جن کے کانوں تک ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں پہنچ رہی تھیں حالانکہ دونوں کمروں والے بچوں کی غذا ایک جیسی تھی لیکن وہ کمرہ جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں اس کے بچے زیادہ بھوک کا اظہار کرتے ہوئے غذا زیادہ کھاتے تھے۔ اس کے برعکس دوسرے کمرے والے کم بھوک کا اظہار کرتے تھے۔ کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز سے وابستہ شیر خوار بچوں کی پرورش کے مراکز میں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنوں کی شدت کے لحاظ سے بھی تحقیق کی گئی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر یہ دھڑکنیں ماں کے
کے دل کی قدرتی دھڑکنوں کی آواز سے زیادہ شدید ہوں تو بچے مضطرب ہو کر رونے لگتے ہیں۔ بجے کر ۔ کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے ایک ڈاکٹر نے دنیا کے براعظموں کا سفر کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک میں مائیں بچوں کو کس طرف سے گود میں لیتی ہیں؟ یہ ڈاکٹر جس کا نام ڈاکٹر سے گود میں یہ لی سالک ہے اور ابھی تک کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز میں کام میں مشغول ہے اس کے بقول دنیا کے تمام براعظموں میں مائیں اپنے بچوں کو بائیں طرف کی بغل میں لیتی ہیں اور وہ خواتین جو اپنے بچوں کو دائیں کو کی میں لیتی اور وہ جو کو طرف والی بغل میں لیتی ہیں ان میں سے اکثر بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ہیں۔ خصوصاً جب وہ ٹوکری اٹھاتی ہیں تو اپنے بچوں کو دائیں طرف والی آغوش میں لیتی ہیں تا کہ وہ بائیں ہاتھ سے ٹوکری اٹھا سکیں۔ڈاکٹر لی سالک نے حقیقی مرکز سے منسلک بچوں کی پرورش گاہ میں زچہ خواتین سے جو پیدائش کے بعد وہاں سے چلی جاتی ہے اور نو مولودوں کو بائیں طرف بغل میں لیتی ہیں سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ اپنے بچے کو بائیں بغل میں کیوں رکھتی ہیں؟ کسی خاتون نے ڈاکٹر لی سالک کو جواب نہ دیا کہ چونکہ دل سینے کے بائیں حصے میں واقع ہے اور بچوں کے لئے اس کی دھڑکنوں کا آواز سننا مفید ہے مائیں اس بات سے آگاہ نہیں کہ
وہ بچے کو بائیں طرف رکھنے کو کیوں ترجیح دیتی ہیں پھر بھی وہ بچے کو بائیں طرف بغل میں رکھتی ہیں۔ یہاں تک کہ افریقہ کے سیاہ فام قبائل کی عورتیں جب بچے کو پیٹھ پر نہیں اٹھاتیں تو اسے بائیں جانب بغل میں رکھتی ہیں اور افریقہ کے تمام سیاہ فام قبائل میں خواتین کو علم ہے کہ بچے کو بائیں طرف سینے پر رکھنے سے اس کی بھوک بڑھتی ہے اور وہ خوب دودھ پیتا ہے جب کہ دائیں طرف کے اثرات اس کے بر عکس ہیں ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں سے سنا ہے کہ رات کو بچہ جب بھوکا ہوتا ہے تو اندھیرے میں حیران کن تیزی سے ماں کے پستان کو تلاش کر کے اس پر منہ رکھ کر دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ انہیں تعجب ہے کہ بچہ روشنی کے بغیر ہی ماں کے پستان کو ڈھونڈ کر اس سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں کو بتایا کہ رات کی تاریکی میں ماں کے پستان سے دودھ پینے میں ماں کے دل کی دھڑکن بچے کی مدد کرتی ہے اور جب بچہ ماں کے دل کے دھڑکنے کی آواز سنتا ہے تو فورآپستان کو ڈھونڈ کر دودھ پیتا ہے

For English reader https://jobsinf.com/2024/04/23/superman-in-islam-good-advice-for-mothers

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments